عنایت جلیل قاضی
پاکستان سے، عمر میں دو سال چھوٹا ہونے کے باءوجود، چائنا نے قابل عمل منصوبہ جات، عملداری اور دیانت داری کی ایک ایسی مثال قائم کی کہ ساٹھ سال پہلے کی افیونی قوم، اب دُنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور دفاعی طاقت بننے جارہی ہے اور ہم اپنی بد دیانتی، کاہل پن اور بے عمل ہونے کی وجہ سے دنیا کے چند بڑی مقروض اقوام میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے،اپنے آپ کو ایک باوقار اور قابل اعتماد قوم کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کروانے کے بعد، بڑی خاموشی سے ترقی کی راہ پر گامزن کر دیاہے۔ 1949 میں جب چین کو آذادی ملی، تو اُس کی ایسی حالت ایسی تھی جیسی اس وقت پاکستان کی ہے۔ اُس وقت پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق چائنا کی مدد کی اور اُن کی دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کروانے میں پیش پیش رہا۔ چونکہ پاکستان اور چین کے مفادات اور دُشمن مشترک ہیں، تو وقت کے تقاضے کی مناسبت سے یہ دوستی دن بہ دن گہری ہوتی جارہی ہے۔
پاک۔ چین دوستی کوئی ساٹھ، ستر سالوں پر محیط ہے لیکن چترال (سابقہ قاشقار) اور چین کا تعلق ہزار سال سے ذیادہ پرُانا ہے۔ طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے، ہم اس کالم میں تایخ کے اوراق سے کچھ شواہد پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ہم اپنے سابقہ روابط کی بُنیاد پر آئندہ کیلئے اپنی گزارشات پیش کر تے ہوئے،اس ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑ کر، ایک دوسرے کیلئے ترقی کو راہ کو ہموار کر سکیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جو چینی سب سے پہلے چترال آئے وہ خطائے کہلائے۔ تاریخ چترال از مرزا غفران کے مطابق،ان کی پہلی حکومت56 ء میں قائم ہوئی تھی۔ لیکن انگریز محققین بڈلف، اسٹن وغیرہ کے مطابق چین کی طرف سے چترال پر پہلا حملہ 747ء جنرل کوہین چی (یا سی) کی قیادت میں کیا گیا۔ جنرل کوہین چی، اس وقت چترال کے نافرمان بادشاہ، پوٹیموکو زیر کرنے آئے تھے جو چین کے شہنشاہ سے بغاوت کر بیٹھا تھا۔ جنرل کوہین چی نے پوٹیمو کو شکست دیکر ان کے بڑے بھائی سوچی کو، چین سے وفاداری کی شرط پر، چترال کی بادشاہت دیدیں۔ خطائے انتہائی بے رحم لوگ تھے اور اُن سے منسوب کھوار زبان میں بے رحم انسان کیلئے خطائے کا استعارہ اب تک استعمال کیا جاتاہے۔ 1320ء میں ایک کاشغری حکمران، تاج مغل نے چترال پر حملہ کرکے اِس پر قبضہ کرلیا۔ وہ اسماعیلی مذہب کا پیروکار تھا۔ انہوں نے یہاں اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کے بعد،حکمرانوں کو اسماعیلی مذہب اختیار کرنے کی شرط پر تاج وتخت واپس کرکے یہاں سے چلے گئے۔ 1527ء میں کاشغر کے چغتائی مغل حکمران سلطان سعید خان نے شہزادہ رشید خان کی قیادت میں چترال پر حملہ کردیا لیکن ناکام ہوگیا۔ 1538ء میں اس نے دوبارہ حملہ کرکے چترال پر قبضہ کرلیا۔ 1640ء عبدللہ خان چینی مغلوں میں سے،ایک کاشغری حکمران نے بھی اس علاقے پر بھی قبضہ کیا تھا۔ چترال کی لوک روایات میں اِن لوگوں کو قلمق کہا جاتا ہے جو بے سیار خوری میں مشہور تھے، اِسی مناسبت سے چترالی زبان میں پیٹو کو قلمق سے تشبیہ دے کر قلمقی کہاجاتا ہے۔
اُس زمانے میں چترال کا نام قاشقار تھا۔ اب بھی دیر،نورستان اور دیگر علاقوں کے لوگ چترالیوں کو قاشقاری یا قاشقاریان کہتے ہیں۔ اس وجہ تسمیہ کی ایک روایت یہ ہے کہ کسی زمانے میں چترال کاشغر کا مقبوضہ حصہ اور چینی سلطنت میں شامل تھا۔ اُن چینی حکمرانوں نے یہاں پرگنہ جات، جنگلات اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے جو قوانین، اصول و ضوابط بنائے تھے، وہ تا حال چترال میں نافذالعمل ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی چینی نسلیں چترال کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔
اب آتے ہیں اصل مطلب کی طرف اور وہ پاک۔چائنا اقتصادی اہداری منصوبہ براستہ چترال ہے۔ اس حوالے سے اس کالم میں ہم مختصراًیہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ اِس روٹ کو چترال کے کون سے دروں سے چائنا کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے اور اس کے فوائد کیا ہونگے
اِس سلسلے میں دیکھا جائے تو ہمارے پاس دو بڑے ممکنہ راستے موجود ہیں۔ ایک راستہ چترال۔مستوج۔شندور گلگت سے ہوتا ہوا درہ خنجراب سے چائنا تک جاتاہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ حصہ کسی حد تک کھُل چکا ہے اور مزید کام جاری ہے۔ شائد یہی اصل اور پیدار راستہ ہے اور اسی کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ اگر ہم دوسرے آپشن کی بات کریں تو یہ راستہ چترال سے واخان اور وخان سے چائنا تک ہے۔ اس آپشن کے حوالے سے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ چترال اور وخان کے درمیان کون سے ایسے درّے ہیں جہاں سے چترال اور واخان کو آپس میں ملایا جا سکتا ہےاس سلسلے میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے پاس دوراہ، اوچھیلی، کان خون، بروغل، درواز، کچھوآن اور سد استراغ اور زیوارگول کا درّے موجود ہیں۔ اس سلسلے میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے دوراہ پاس کو قابل عمل ٹھیرایا ہے۔ اوچھیلی (ریچ)، زیوار گول (واشچ) اور بروغل کو یکثر نظر انداز کردیاگیا ہے۔
اس موقع پر میری گذارش ہے کہ اِن محفوظ دروں کو بھی دیکھا جائے کیونکہ تاریخ میں ان دروں سے آنے جانے کی کہانیاں بھی زبانِ ذدِ عام ہیں۔ تیریچ کے علاقے میں بھی ایک درہ روس گول کے نام سے مشہور ہے۔ لہذا تمام اپشنز کو مد نظر رکھا جائے۔ اِن دروں سے ہم چترال سے وخان پہنچنے کے بعداب وخان سے آگے چین کی طرف چلتے ہیں۔
واخان سے چائنا تک جانے کیلئے تین بڑے درّے موجود ہیں۔ پہلا درّہ شمال کی طرف سے ہے۔ یہ راستہ، پنجی۔ پامیر سے ہوتا ہوا دریائے اشکو، چائنا سے جاملتا ہے۔ دوسرا راستہ جنوبی ہے،جو وخان۔ وخجیر پاس سے ہوتا ہوا چائنا کُھل جاتا ہے۔ تیسرا راستہ وخان سے ٹیگر مانس درّے سے ہوتا ہوا چائناسے مُنسلک ہو جاتا ہے۔ اسطرح چترال وخان اور چائنا کو ملایا جا سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چائنا راہداری منصوبے کو چترال سے گزارنے کے کیا فوائد ہوں گےاس سوال کے جواب میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ نقشے سے، ہمارے صوبے میں صرف ہزارہ ڈویژن کو فائدہ ہوگا (جو پہلے سے مستفید ہے)، باقی تمام اضلاع محروم رہ جائیں گے۔ دوسری طرف ہزارہ ڈویژن میں علیحدہ صوبے کی تحریک زوروں پر ہے اگر یہ علیحدہ صوبہ بن جاتا ہے تو پھراس اقتصادی راہ داری کا خیبر پختون خوا کو کیا فائدہ ہوگاجبکہ چترال چائنا راہداری سے اِس صوبے کے 20 اضلاع کو براہ راست فائدہ ہوگا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ چترال تاجکستان روڈکی منظوری ہوچکی ہے، لہٰذا چترال پاکستان، چائنا، افغانستان، تاجکستان اور کرغزستان کے درمیاں مرکزی پڑاءو ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس ڈرائی پورٹ بنا نے کیلئے ایک وسیع علاقہ قاق لشٹ کی صورت میں موجود ہے، جس کا کُل رقبہ بیس ہزار ایکڑ سے بھی زیادہ ہے، جو ڈرائی پورٹ اور صنعتی بستی بنانے کیلے انتہائی موزوں جگہ ہے۔ تیسری بات،صنعت و حرفت کیلئے پانی اور بجلی کا ہونا ازحد ضروری ہے اور چترال میں وافر مقدار میں پانی موجود ہے جس سے 24000 میگا واٹ تک سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اِس طرح ایک زبردست ڈرائی پورٹ یا انڈسٹرئیل زون قاق لشٹ میں بنایا جاسکتا ہے۔ ٰٓ انڈسٹرئل زون چترال میں بنایا جا سکتا۔
تجارت کے حوالے سے ایک اور اہم چیز،چترال اور ملاکنڈ ڈویژن کی معدنیات ہیں جو ہمارے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ چترال۔ چائنا کوریڈوربننے کی صورت میں ہمارا صوبہ ملامال ہوجائے گا۔ چترال سے یہ کوریڈور بننے کی صورت میں ہمارے صوبے کے شمالی اضلاع، سیاحت کے مرکز بن جائیں گے کیوں کہ یہ تمام اضلاع اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں، مگر رسائی نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں سے اوجھل ہیں۔
اگر ہم اس روٹ کا شاہراہ ریشم سے موازنہ کریں، تو اُس کے مقابلے میں یہ روٹ مختصر اور ذیادہ محفوظ ہوگا کیوں کہ یہ راستہ ہمارے ازلی دشمن کی آنکھوں سے اوجھل ہوگا، وہ ہمارے لیئے مشکلات پیدا نہیں کرسکے گا اور بلا تعطل نقل و حمل جاری رہے گی۔ موجودہ شاہراہ ریشم برفانی تودوں اور لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے اکشر بند رہتا ہے اور مسافروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کیلئے بھی درد سر ہے۔ امن وامان کے لحاظ سے بھی زیادہ محفوظ نہیں ہے۔
Indepth analysis of the connectivity issue vital for region especially Chitral.
Qiamato pehlia hami mansobaan sora amal daramd shorogh boy, iA
Hta ghar achi ….chenu ma chenar goi