داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
خبر آئی ہے اور عجیب خبر آئی ہے کہ صو بائی سروس کے افیسروں نے چاروں صو بوں کی زنجیر بناکر سروس ریفارمز کے بارے میں وزیر اعظم کے ٹاسک فورس سے ملا قات کی اور اپنے مطا لبات پیش کئے ٹاسک فورس کے ممبران ڈاکٹر عشرت حسین اور ارباب شہزاد نے صو بائی سروس سے تعلق رکھنے والے افیسروں کے معروضات سنے اور ان کے مطا لبات پر غور کرنے کی یقین دہا نی کی اس پر افیسر وں کے وفد نے اطمینان کا اظہار کیا شاعر نے کہا تھا
ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
یہ خبر حیرت انگیز اور عجیب اس لئے ہے کہ اس میں افیسروں کے مطا لبات کا ذکر ہے ہمارا خیال تھا کہ سب کے مطا لبات پر افیسروں کو غور کرنا ہوتا ہے بھلا افیسروں کے کیا مطالبات ہونگے خبر کی تفصیلات سے آگاہی کے بعد پہلی بار معلوم ہوا کہ افیسروں کی دو قسمیں ہیں بعض وفاقی سروس کے افیسر ہیں بعض کو صوبائی سروس کا افیسر کہا جاتا ہے دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن ان کی ہا ہمی رقابت سے عوام کو کسی قسم کا فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے
خبر کو پڑھنے کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ وفاقی سروس والے صوبائی سروس والوں پر طرح طرح کی ناانصافیاں کرتے ہیں اور انصاف کی حکومت میں بھی ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے خبر کی تفصیلات نے یہ عقدہ بھی کھول دیا کہ وفا قی سروس والوں میں ایک گروپ لاڈلوں کا ہے اور لاڈ لوں کا یہ گروپ ہر وقت چاند سے کھیلتا ہے اس کھیل میں صو بائی سروس والوں کا حق مارتا ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ لاڈلا 1973ء کے آئین کو نہیں مانتا اٹھارویں ترمیم کو بھی نہیں مانتا خود کو کسی بھی قاعدے اور ضا بطے کا پابند نہیں گردانتا جو لوگ 2010سے پہلے ریٹائر ہوئے ان کا کہنا ہے کہ لا ڈ لے کا پہلا نام سی ایس پی تھا لوگ اس نام سے بیزار ہوئے تو اس کے اندر سے ڈی ایم جی کو نکال کر الگ شناخت دیدی گئی پھر ڈی ایم جی بھی اپنے کرتو توں کی وجہ سے بدنام ہوئی تو اس کا نیا نام پا کستان ایڈ منسٹر یٹیوں سروس یعنی پی اے ایس رکھ دیا گیاپرشراب نئی بو تل اور خوشنما پیکنگ میں بھی مقبو لیت حا صل نہ کر سکا فارسی میں سکہ بند شعر ہے
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پو ش
من اندازِ قدت رامی شنا سم
تم جس رنگ روپ میں چا ہو کپڑے بدل بدل کر آجا ءو میں تمہیں تمہارے قد سے پہچانتا ہوں چنا نچہ پی اے ایس کے حصے میں بھی نیک نا می نہیں آ ئی حقیقت یہ ہے کہ نیک نا می ان کو راس نہیں آتی صو بائی سروس کا پرانا نام پراونشیل سول سروس تھا اس کا نیا نام پراونشیل منیجمنٹ سروس پی ایم ایس ہے وفاقی سروس کے طرز پر اُسی نصاب کے تحت ان کا امتحان ہوتا ہے انٹرویو کا معیار بھی وہی ہے اکیڈ یمی کے اندر ان کی تر بیت کا معیار بھی وہی ہے جو وفا قی سروس کے لئے مقرر ہے تا ہم وفا قی سروس والے خود کو بر ہمن کا درجہ دیتے ہیں اور صو بائی سروس والوں کو اچھوت یا شودر اور ملیچھہ قرار دیتے ہیں اگر جنگل والوں کی زبان میں بات کی جائے تو وفا قی سروس والے ہاتھی ہیں صو بائی سروس والوں کی مثال ہاتھی کے سامنے چیونٹی جیسی ہے پنڈت کے سامنے صو بائی سروس کے افیسر وں نے کوئی لمبا چوڑا یا مو ٹا گہرا مطا لبہ نہیں رکھا ان کا مطا لبہ سیدھا سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ صو بائی حکومتوں میں وفاقی سروس کے افیسروں کو نہ بھیجو صو بائی سروس کے افیسروں کا یہ حق بنتا ہے کہ صوبے میں اہم آسا میان 1973ء کے آئین کے تحت ان کو ملیں اس سلسلے میں وہ آئین کے دفعات 154,153,142,139,137,129,121,97اور 240کا حوا لہ دیتے ہیں ما ورائے آئین کچھ نہیں مانگتے انہوں نے وزیر اعظم کے ٹا سک فورس سے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم نے کنکر نٹ لسٹ کو ختم کیا ہے یہ مو قع ہے کہ وفا قی افیسروں کی خد مات وفاق کو دی جائیں
صو بائی سطح پر صو بائی سروس کے افیسروں کو اہم عہدوں پر تعینا ت کیا جائے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صو بائی حکومت میں گریڈ 22کی آسامی صو بائی سروس کے افیسروں پر حرام ہے صو بائی سروس کا کوئی افیسر گریڈ 22کی آسامی پر تعینات نہیں ہوسکتا یہ خا لصتا ًبر ہمنوں اور پنڈتوں کا علا قہ ہے یہ انہی کا ڈو مین ہے گریڈ 21کی آسامیوں میں کا غذی حساب سے 25%حصہ پی ایم ایس کو دیا گیا ہے مگر یہ صرف کا غذ تک محدود ہے اس طرح گریڈ 20 میں پی ایم ایس کا حصہ 35فیصد، گریڈ 19 میں 50فیصد، گریڈ 18 میں 65فیصد اور گریڈ 17 میں 75فیصد رکھا گیا ہے یہ تقسیم بھی صرف کا غذوں تک محدود ہے بر ہمن اس پر عملدر آمد ہونے نہیں دیتا کیونکہ چابی اس کے ہاتھ میں ہے یہ فارمو لا 1993ء میں ایک کمیٹی نے طے کیا تھا کمیٹی 5ڈی ایم جی افیسروں پر مشتمل تھی جس میں اسٹبلشٹ سکرٹری کے ہمراہ چاروں صو بوں کے چیف سکرٹری بیٹھے تھے اور اپنی سہو لت کے لئے اس بیٹھک کو صو بوں سے مشاورت کا نام دیتے تھے حالانکہ ہر صوبے کی نما ئندگی ڈی ایم جی کے ایک پنڈٹ کے پا س تھی سروس ریفارمز کا مطلب نا انصا فیوں کو ختم کرنا ہے تو سروسز میں بر ہمن اور اچھوت کے فر ق کو ختم کرنا ہو گا اگر پی اے ایس کے پنڈت اپنی اجا رہ داری پر اڑے رہے تو شودر کو اس کا جائز مقام کبھی نہیں ملے گا۔