تحریر: مبارک شاہ برات
قاریں کرام مہنگائی بڑھنےکی 4 بنیادی وجوہات ہوتی ہیں جب بھی کوئی ملک اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے تو ان 4 بنیادی عناصر کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے اگر ان جزیات کو نظرانداز کیا گیا تو ملکی معیشت بے قابو ہوجائے گی، سبسڈی ناکام حکمت عملی ہے اور مصنوعی طریقے سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے سبسڈی سے وقتی طور پر مہنگائی کنٹرول ہوتی ہے مگر ملکی معیشت مستحکم نہیں ہوتی ہے بلکہ کمزور ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ عوام کو اگلی حکومتوں میں بھگتنا پڑتا ہے جیسے 2018 کے بعد سے لیکر ابھی تک ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے- مہنگائی بڑھنے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہوتی ہیں
1- اکنامک بوم
2-راء میٹریل کی قیمتوں کا بڑھنا
3-تنخواہیں بڑھنا
4-کرنسی ڈی ویلیو ہوجانا
1- اکنامک بوم سے مراد جب کسی ملک کی اکنانومی گرو کرتی ہے تو اس ملک میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے- اکنانومی گرو کرنے سے لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ آنا شروع ہوجاتا ہے جس سے وہ پیسہ زیادہ خرچ کرتے ہیں اور یوں چیزوں کی ڈیمانڈ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے- حقیقتاٙٙ یہ یونیورسل لاء ہے جاپان اور دوسرے ممالک اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں- اب پاکستان میں اگر پچھلی حکومت میں اکانومی گرو کررہی تھی تو مہنگائی کو بڑھنا چاہیئے تھا لیکن مہنگائی مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں تھی ظاہر ہے عوام کو دھوکہ دیاجارہا تھا
2-دنیا بھر کےممالک راء میٹریلز کے لیئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لہذا راء میٹریلز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے مثلا ہم کروڈ آئل کے لیئے عرب پر انحصار کرتے ہیں تو جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھتی ہے ہمارے ملک میں اس قیمت کے بڑھنے کا بلاواسطہ اثر ہر چیز پر پڑھتا ہے لہذا مہنگائی ہوجاتی ہے- اکنامک پالیسی کو بناتے ہوئے اس جز کو ذہن میں رکھنا ضروری سمجھاجاتا ہے۔
3- تنخواہوں کے بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتی ہے اگر پاکستان ریلوے کا ماہانہ آمدن 2 کروڑ روپے ہے جس میں سے 5 ملیں ان کے اخراجات اور 5 ملین روپے ملازمین کی تنخواہیں نکال کر کل آمدں 1 کروڑ بنتا ہے- اب 1 سال کے بعد ملازمین کی تنخواہیں بڑھائے گئے پاکستان ریلوے نے اگلے سال 2.5 ملین روپے سیلری کی مد میں بڑھا دیئے تو کل آمدن 1 کروڑ سے کم ہوکر 75 لاکھ میں اگیا لہذا ریلوے اپنی خسارے کو پورا کرنے کے لیئے اپنی ٹکٹ کی قیمتیں زیادہ کردے گی تاکہ اس کا پرافٹ مارجن یا پہلے جتنا رہے یا پھر مزید بڑھ جائے- اب ریل کا کرایہ 1000 کے بجائے 1250 روپے ہوگا کرائے میں 250 روپے کا اضافہ ہوگا اس طرح ہر شعباجات میں تنخواہیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا
4- کرنسی ڈی ویلیو ایشن کرنسی کی جو ویلیو 1947 میں تھی وہ ویلیو اس وقت نہیں ہے بلکہ کم ہوچکی ہے- 1947 میں 1 پاکستانی روپے کی ویلیو 2020 میں تقریبا ایک اندازے کے مطابق 700 پاکستانی روپے کے برابر ہے یعنی جتنی چیزیں 1947 میں 1 روپے کی آتی تھی اتنی چیزیں اب 700 روپے میں آئیں گی لہذا کرنسی ڈی ویلیو ہو گیا تو پیسے کی قدر میں نمایاں کمی کو مدنظر رکھ کر ہمیشہ اکنامک پالیسی بنائی جاتی ہے
کرنسی ڈی ویلیو ایشن کی ایک بڑی وجہ تھوک کے حساب سے کرنسی نوٹوں کا چھاپنا ہے- جب حکومت بینکوں سے قرضے لیتی ہے بینکوں کو نوٹ زیادہ چھاپنے پڑتے ہیں تو یوں کرنسی ڈی ویلیو ایشن ہوتی چلی جاتی ہے – پاکستان میں ماضی کی حکومتوں نے اس فیکٹر کو کبھی ذہن میں رکھا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ڈالر کو سٹیبل رکھنے کی چکر میں ایکسچینج ریٹ سے چھیڑ چھاڑ کرکے اس کو ایک جگہ پر قائم رکھتے رہے اس سے وقتی طور پر مہنگائی رک جاتی تھی لیکن ساری اکنامک پالیسیوں کی بیڑا غرق ہوجاتی تھی اور جب اگلی حکومت آکر ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر لاتی تھی تو جو مہنگائی پچھلے 4 سالوں سے ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی تھی وہ یک دم اس ڈالر کے ریٹ کے مطابق سیٹ ہوجاتی تھی عوام گالیاں نکالتی تھیں اور وہ حکومت دباو میں آکر پھر وہی فکسڈ ڈالر ایکسچینج ریٹ پالیسی کو اپنا کر اپنے باقی کے 5 سال نکالتی تھی تاکہ اگلی حکومت خود ہی بھگت لے گی یہ معیشت کے لحاظ سے حکومت کی سب سے ناکام پالیسی کہلاتی ہے۔
اس ناکام پالیسی کا نتیجہ یہ اخذ ہوا ہے کہ ہماری برآمدات بھی تباہ ہوتی رہی، اکانومی میں بھی نمایاں گرو نہیں ہوتی رہی اور ہماری اکانومی امپورٹ بیسڈ بنتی گئی جس کی 5.8 فیصد کاغذی گروتھ ریٹ سے ہر جگہ شوخیاں ظاہر ہوئی مگر ملک تباہی کے کنارے جاپہچی منافقانہ انداز یہ اپنایا گیا کہ کاغذوں میں دکھانے کے لیئے گروتھ ریٹ اچھا رہا لیکن گراؤنڈ پر اس 5.8 فیصد کی ڈی ویلیو ملک اور قوم کیلئیے زہر بنی
2018 سے لیکر 2020 کے درمیان ہونے والی مہنگائی سے مجھ جیسے آزاد خیال لوگ خوش ہونگے کیونکہ اس میں قوم کیلئے نوید ہے کئی مہینے سوچ بچار اور تحقیق کے بعد میں نے محسوس کیا کہ موجودہ حکومت منافقت سے بالاتر ہے اور نیت میں فطور نہیں ہے۔ اسی لیئے موجودہ حکومت نے شروع میں کہی تھی کہ مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا اور انہی مشکل حالات سے ہم گزر رہے ہیں مجھے یقیں ہے 2022 میں ہم مہنگائی میں 40فیصد کمی کے ساتھ تبدیلی کی پہلی سڑھی چڑھیں گے اور 2 سال بعد نمایان تبدیلی نظر ائے گی